Source text in English | Translation by Syed Muslim Rizvi (#32981) — Winner |
We live in one of the tiny apartments in a multi-storeyed building complex that provides shelter to a number of middle-class families. But, the members of the family Felis Domestica who have taken a fancy to our complex might very well outnumber the members of Homo Sapiens. Because these quadrupeds with retractable claws, who can boast of their country cousins- Lions, Tigers, Lynxes, and Ocelots fear no one in our vicinity. The increasing feline population possessing nine lives up their claws bothers everyone but provides comic relief to many. These cats in our avenue have their own strict demarcations about territory. The ground floor, first and second-floor mousers keep to their floors except for hungry forays into the kitchens across the lines of control. The terrace is exclusively reserved for the young ones and occasionally used by the aristocrats from the erstwhile Siam for body lickings and sunbaths. Some of the tomcats find cozy corners for a purring sleep in places where there isn’t room to swing a cat in, such as the watchman’s cabin, where they might have found the poor fellow catnapping. God has gifted these cats with two voice boxes one for purring and another for meowing and a few of the feline sopranos in our locality keep all the residents awake with their nocturnal orchestras on special occasions. Some of the residents who wish to be clean as a cat in pattens get irritated when these grey cats mess up their things. The hawks among the residents strongly feel that these cats should be driven out with a cat o’nine tails. But the doves are undecided waiting to see which way the cat jumps. Well, we don’t know who will be called to bell the cat! | ہم ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں جو ایک کثیر المنزلہ بلڈنگ کمپلکس میں واقع اپارٹمنٹس میں سے ہے جو متوسط طبقے کے متعدد خاندانوں کو سائبان فراہم کرتے ہیں۔ لیکن، عین ممکن ہے کہ یہاں حیوانوں کی قسم فِیلِس ڈومیسٹیکا (Felis Domestica، بِلّی) جن کو ہمارا کمپلکس بھا گیا ہے تعداد میں ہومو سیپئنز (Homo Sapiens، انسانوں) سے زیادہ ہوں۔ سبب یہ ہے کہ سمٹ کر پنجوں کے اندر چلے جانے والے نوکیلے ناخن رکھنے والے یہ چوپائے جو اپنے جنگلی رشتے دار شیروں، چیتوں، لِنکس (جنگلی بِلّی) اور اوسیلوٹس (میدانی چیتے) کا نام فخریہ لے سکتے ہیں، ہمارے علاقے میں کسی سے خوف نہیں کھاتے۔ بِلّیوں کی اس بڑھتی آبادی سے، جس کی نو زندگیاں ہوتی ہیں، ہر کوئی تنگ ہے لیکن کئی کو یہ مزاحیہ تفریخ بھی فراہم کرتی ہے۔ ہماری سڑک پر ان بِلّیوں نے خود ہی اپنے علاقوں کی سختی سے حد بندیاں کی ہوئی ہیں۔ نچلی منزل، پہلی اور دوسری منزل کے چوہوں کے یہ شکاری بھوک کی صورت میں حدِ فاصل کے پار باورچی خانوں پر ہاتھ صاف کرنے کے علاوہ اپنی اپنی منزل پر ہی رہتے ہیں۔ ٹیرس فقط نوعمروں کے لیے مخصوص شدہ ہے اور کبھی کبھار کچھ شاہانہ مزاج سابقہ سیامی بھی یہاں بیٹھ کر زبان سے جسم کو صاف کرنے اور دھوپ کھانے کے لیے اس جگہ کو استعمال کر لیتے ہیں۔ کچھ بڑے بِلّے خرخراتی نیند لینے کے لیے ایسی جگہوں پر آرام دہ کونے تلاش کرتے ہیں جہاں اتنی مختصر سی جگہ ہو کہ وہاں کوئی اور سرگرمی نہ ہوتی ہو، جیسے چوکیدار کا کیبن جب وہ بیچارہ ان کو اونگھتا ہوا مل گیا ہو۔ خدا نے ان بِلّیوں کو دو نرخرے عطاء کیے ہیں، ایک خرخرانے کے لیے اور دوسرا میاؤں میاؤں کرنے کے لیے، یوں ہمارے علاقے کی کچھ بلند آہنگ بلیاں خاص مواقع پر تمام رہائشیوں کو اپنی شبینہ موسیقی سے جگائے رکھتی ہیں۔ کچھ رہائشی جو ہر کونے کو چمچماتا صاف اور قرینے سے رکھنا چاہتے ہیں، اُس وقت جھنجھلا جاتے ہیں جب یہ آزاد منش بلِّیاں ان کی چیزوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیتی ہیں۔ تیز مزاج رہائشیوں کا پختہ خیال ہے کہ ان بِلّیوں کو طاقت کے زور پر نکال باہر کیا جانا چاہیے۔ لیکن نرم دل حضرات کچھ فیصلہ نہیں کر پا رہے اور بس یہ دیکھنے کے انتظار میں ہیں کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ پس ہم نہیں جانتے کہ بِلّی کی گردن میں گھنٹی باندھنے کا کام کس کے ذمے لگایا جائے گا! |