[...] Translators just didn't get recognition, they didn't expect to make much of a living, just get by. Very few people were actually trained as translators, but most had a solid college education and a solid knowledge of languages, at least their own language. I had a friend who fell exactly into that category and my circle of friends expanded to include other translators. I found them to be much more interesting as people, and discovered that we often had similar life experiences. I never had trouble making friends, but I always felt "different" and I'm sure they felt it too. When my friend retired, she recommended me as her replacement. I now entered the realm of Reinsurance, of which I knew nothing. I was also the only translator there, and didn't have much to fall back on. However, it was another notch up....
On my new job, I started looking through the files, asking questions and got the company to enroll me in Insurance courses. The College of Insurance was across the street, and I consulted fire codes, insurance policies and fire extinguisher catalogs in their library. I was learning what I had never had the luxury of being able to do before: research. The first time I had to translate a proposal for purposes of insurance of a nuclear plant, I got a call from the head man in that department, congratulating me on the job I had done. "Compares favorably with what we are used to," he said. What an upper! What happened was that I consulted a document in the files similar to the one I was tackling for guidance, but when I saw that my predecessor had used the word "nucleus" instead of "core", I realized that the files were useless to me. I went across the street to the library and looked up "nuclear plants." I immediately found all the terminology I needed.
It takes a great deal more than that to be a good translator these days, of course. [...] | مترجمین کو پہچان اور ستائش نہیں ملتی تھی- وہ اس بات کی توقع نہیں رکھتے تھے کہ بہت دولت کمائیں گے- ہاں بس اتنا کہ ان کا گزارا ہو جائے. اصل میں بہت کم لوگ ایسے تھے جو تربیت یافتہ مترجم تھے ۔زیادہ تر اپنی کالج کی تعلیم اور زبانوں کے علم پر انحصار کرتے تھے- کم از کم ان کی اپنی زبان پر. میری ایک دوست کا شمار بھی مترجمین کی بالکل اسی قسم میں ہوتا تھا اور یوں دوسرے مترجمین کی شمولیت کے باعث میرے دوستوں کا حلقہ وسیع ہوا. میں نے انہیں لوگوں کی حیثیت سے کافی دلچسپ پایا اور یہ جانا کہ ہمارے زندگی کے تجربات اکثر ایک سے ہوتے ہیں. مجھے دوست بنانے میں کبھی دقت نہیں ہوئی لیکن میں نے ہمیشہ محسوس کیا کہ ہمارے درمیان کوئی قدر مشترک نہیں اور مجھے یقین ہے کہ انہوں نے بھی ایسا ہی محسوس کیا ہوگا. جب میری دوست ریٹائر ہوئی تو اس نے اپنی جگہ اس عہدے کے لیے میرا نام تجویز کیا۔ اب میں نے ری انشورنس کی دنیا میں قدم رکھا تھا جس سے میں مکمل طور پر ناواقف تھی. وہاں پر واحد مترجم بھی میں ہی تھی اور میرے پاس وسائل کی مد میں کچھ ایسا زیادہ نہ تھا جس پر انحصار کرتی. اس کے باوجود یہ ترقی اور بہتری کی راہ میں ایک اور قدم تھا . اپنی نئی نوکری پر میں نے فائلیں دیکھنا اور سوالات پوچھنا شروع کیے اور اپنی کمپنی کو آمادہ کیا کہ وہ میرا داخلہ انشورنس کورس میں کروا دے. انشورنس کالج سڑک کے اس پار تھا. میں نے کالج کی لائبریری میں آگ بجھانے کے کوڈ، انشورنس کی پالیسیوں اور آگ بجھانے والے آلات کے بارے میں جاننے کے لیے ان سے متعلق کیٹلاگ کا مطالعہ کیا۔میں وہ سیکھ رہی تھی جسے سیکھ پانے کا ایسا سنہرا موقع مجھے پہلے کبھی نہیں ملا تھا. جب مجھے پہلی مرتبہ ایک نیوکلیئر پلانٹ کی انشورنس کے لیے دی گئی تجاویز کا ترجمہ کرنا تھا تو مجھے محکمے کے سربراہ کا فون آیا اور اس نے مجھے میرے کیے ہوئے کام پر مبارک باد دی. اس نے کہا،"جس طرح کی کارکردگی کی ہمیں توقع ہوتی ہے یہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے"۔ کیا بات ہے! واقعہ کچھ یوں ہوا کہ اپنے کام کے بارے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے میں نے فائلوں میں موجود ایک دستاویز کا مطالعہ کیا-یہ بالکل اس دستاویز جیسی تھی جس پر میں کام کر رہی تھی ۔لیکن میں نے جب یہ دیکھا کہ مجھ سے پہلے اس عہدے پر موجود شخص نے کور کی بجائے نیوکلیس کا لفظ استعمال کیا تھا تو میں سمجھ گئی کہ یہ فائلیں میرے کسی کام کی نہیں۔ میں سڑک کی اس جانب لائبریری میں گئی اور "نیوکلیئر پلانٹس" کو تلاش کیا- مجھے فورا ہی وہ تمام اصطلاحات مل گئی جن کی مجھے ضرورت تھی. یقینا آج کل ایک اچھا مترجم بننے کے لیے اس سے بھی کہیں زیادہ کی ضرورت ہوتی ہے |